Tinker Bell

Add To collaction

وہ شخص آخرش مجھے بےجان کر گیا

قسط # 5


فون رکھ کر دائم مجتبٰی غازیان  کی طرف آیا جو یک ٹک فرش کو گھورے جا رہے تھے۔ بظاہر وہ پائیز  سے پیار کا اظہار نہیں کرتے تھے، لیکن یہ سوچ ہی ان کی جان نکالنے کو کافی تھی کہ پائیز  کو گولی لگی ہے۔ کوئی بھی ان کے چہرے سے ان کی دلی کیفیت کا اندازہ لگا سکتا تھا۔

' ڈیڈی! فکر نہ کریں، پائیز  ٹھیک ہو جائے گا۔'

' گولی اپری حصے میں لگی ہے دائم۔' مجتبٰی غازیان نے دائم کو دیکھتے ہوئے کہا۔

کیا کچھ نہیں تھا ان  آنکھوں میں۔ بے بسی، کرب اور بیٹے کو کھو دینے کا خوف۔ ایک لمحے کے لیے تو دائم کا بھی دل کیا کہ رو دے۔ لیکن خود پر قابو رکھا۔ کیونکہ اگر وہ کمزور پڑجاتا تو باقی سب کو کون سنبھالتا۔

' ڈیڈی پلیز۔ اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ ان شاء اللہ وہ ٹھیک ہو جائے گا۔'

' چاچو پلیز ہمیں معاف کر دیں۔ یہ سب ہماری وجہ سے ہوا ہمیں پائیز  کی بات نہیں ماننی چاہیئے تھی۔' شارق نے مجتبٰی غازیان  کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا۔

' اگر ہمیں پتہ ہوتا کہ یہ سب ہو جائے گا تو ہم کبھی بھی پائیز  کی بات نہ مانتے۔' مجتبٰی غازیان نے ایک نظر شارق کے شرمندہ اور عریش  کے سفید پڑتے  چہرے کو دیکھا، پھر گہرا سانس بھرتے ہو کہا۔

' مجھے ساری بات بتاؤ۔'

********************

' ہیلو بڈیز! کیا حال ہے۔' پائیز  نے ویڈیو کال پر عریش اور شارق سے کہا۔

' ہم ٹھیک ہیں تم سناؤ کیسے ہو؟' عریش نے کہا۔

' ہمیشہ کی طرح ہنڈسم اور سمارٹ۔ ' پائیز  نے مسکراتے ہوئے کہا۔

' ہاہاہاہاہا۔۔۔ مطلب دماغ ابھی تک خراب ہے۔'  عریش نے ہنستے ہوئے کہا۔

' اچھا چھوڑو ان باتوں کو اور یہ بتاو کہ فلائٹ کب کی ہے؟' شارق  نے پوچھا۔

'پانچ بجے کی ہے۔'

' اور پاکستان کب تک پہنچو گے؟' 

'یہی کوئی آٹھ تک۔' پائیز نے اندازے سے کہا۔

' اور پلین ڑیڈی ہے نہ؟ میرے آنے سے پہلے سب کچھ تیار ہونا چاہیئے۔'

'ہاں ہاں بےفکر رہیں جناب۔ ہم نے ساری تیاری کر لی ہے۔' شارق نے یقین دہانی کرائی۔

' ویسے پائیز تمھیں نہیں لگتا، یہ تانی  کی لیے خطرناک ہے۔ وہ تم دونوں کے معاملے میں کافی حساس ہے۔' عریش  نے کب سے دل میں آنے والے خدشے کو بیان کیا۔

' ہاں میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔' شارق نے بھی تائید کی۔

' چلو پھر ایسا کرتے ہیں کہ  تھوڑی دیر بعد ہی پلین کلوز کر دیں گے۔' پائیز  نے حل پیش کیا۔

'ہاں یہ ٹھیک ہے۔ چلو اب جا کر پیکینگ کرو۔ ورنہ سچ میں فلائٹ مس ہو جائے گی۔' شارق نے مسکراتے ہوئے کہا۔

' اوکے بائے!' پائیز شرارت سے بولا۔

' انگریزوں کے گم شدہ بندر۔۔ اللہ حافظ بولا کر، کتنی دفعہ کہا ہے۔' عریش نے چڑتے ہوئے کہا۔

'ہاہاہاہاہاہا۔۔ اچھا شارق  اللہ حافظ اور عریش بائے بائے۔'

پائیز  نے ہنستے ہوئے کال بند کردی۔ عریش کو چڑانا ہو اور پائیز  کوئی موقع ہاتھ سے جانے دے۔ نا ممکن! ابھی بھی صرف عریش  کو چڑانے کے لیے ہی بائے بولا تھا۔

**************

آٹھ بجے شارق  اور عریش  ائیرپورٹ پہنچ گئے تھے لیکن پائیز  کا کچھ اتا پتا نہیں تھا۔

' یارر۔۔۔ یہ کہاں رہ گیا ہے-' عریش نے چڑتے ہوئے کہا۔

' آجائے گا حوصلہ رکھو۔۔ ہو سکتا ہے کوئی مسئلہ ہو تب ہی دیر ہو گئی ہے۔' شارق نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ پریشان تو وہ بھی ہو گیا تھا کیونکہ اب نو بج رہے مگر پائیز  کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں تھا۔

ابھی وہ دونوں پائیز کو ڈھونڈ ہی رہے تھے کہ کسی نے پیچھے سے آکر دونوں کو گردن سے دبوچ لیا۔ اور پراسرار آواز میں بولا۔

'خبردار! ہلنا مت۔ یو آر انڈر ارسٹ۔'

' کہاں رہ گیا تھا، کب سے انتظار کر رہے تھے ہم۔' عریش  نے اپنی گردن آزاد کروا کر غصے سے کہا۔

'ہاں نا، ہم پریشان ہو گئے تھے۔' شارق نے گلے ملتے ہوئے کہا۔

' یار پشاور  کی ڈائریکٹ فلائٹ نہیں مل رہی تھی تو پہلے اسلام آباد گیا اور پھر وہاں سے یہاں پشاور آیا ہوں۔ باقی  دیر  چیک ان کے وقت ہوئی اور تم کیوں تپ رہے ہو؟ اب تو آگیا ہوں نا۔' پائیز  نے کہتے ہوئے عریش  کو زبردستی گلے لگایا۔

' تمہیں انداز ہے کتنا انتظار کیا ہے ہم نے؟ ظالم چار سال کم نہیں ہوتے۔' عریش  نے کس کر  گلے لگاتے ہوئے شکوہ کیا۔

' اوئے میں بھی آیا۔' شارق بھی مسکراتے ہوئے ان دونوں کی جانب بڑھ گیا۔

کچھ دیر بعد وہ تینوں ائیرپورٹ سے نکل کر شارق کے فلیٹ کی جانب روانہ ہو گئے۔ فلیٹ پر پہنچ کر پائیز  فریش ہونے چلا گیا جبکہ عریش  اور شارق  کھانا نکالنے چلے گئے جو انھوں نے راستے سے لیا تھا۔

'واہ تم دونوں نے تو گھر داری بھی سیکھ لی۔'  پائیز  نے عریش  اور شارق کو ٹیبل لگاتے دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔ جس نے حسب معمول عریش  چڑھ گیا اور شارق ہنسنے لگا۔

'ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔ یار اب یہاں اور کوئی تو ہے نہیں جو کھانا لگائے۔' شارق نے بیٹھتے ہوتے کہا۔

' گھر کا کام کرنا کوئی بری بات تو نہیں ہے۔ ویسے بھی یہ سنت ہے۔' عریش  نے منہ پھولاتے ہوئے کہا۔

'اچھا بس کرو۔ جلدی سے کھانا کھاو ہمیں گیارہ بجے تک نکلنا بھی ہے۔' اس سے پہلے کہ پائیز  عریش  کو اور چڑاتا، شارق  نے مداخلت کرتے  ہوئے دونوں کو کہا تو دونوں مسکراتے ہوئے کھانے کی طرف متوجہ ہو گئے۔

*******************

ساڑھے دس بجے تک وہ غازیان ویلہ پہنچ گئے۔

'یہ اتنی جلدی کیوں آگئے  ہیں؟؟ اتنی دیر ہم کیا کریں گے' عریش  نے پائیز  سے پوچھا۔

پائیز  نے مسکراتے ہوئے شانے اچکائے اور اگے بڑھ کر دروازہ کھولا  اور دونوں کو گڈ لک وش کر کہ پائیز  سامنے سے ہٹ گیا۔ عریش  اور شارق  نے اپنے چہرے ڈھانپ لیے اور اندر چلے گئے۔

'پہلے کس کے کمرے میں جانا ہے؟' عریش نے سرگوشی میں پوچھا۔

'میرا خیال ہے پہلے چاچو کی طرف جاتے ہیں، ان کو باندھ کر پھر دائم بھائی کی طرف جائیں گے۔'

وہ بنا آواز پیدا کیے، خاموشی سے مجتبٰی  غازیان کے کمرے میں گئے۔ عریش غزالہ بیگم کی طرف جبکہ شارق مجتبٰی غازیان کی طرف گیا۔

'ہیے۔۔۔ اٹھو۔۔' شارق نے اپنی آواز کو رعب دار بناتے ہوئے مجتبٰی غازیان کو ہلایا۔ مجتبٰی غازیان نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو کوئی نقاب پوش ان پر جھکا ہوا انھیں اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے، شارق کی آواز نے انھیں خاموش رہنے پر مجبور کو دیا۔

'خبردار! کوئی ہوشیاری نہیں ورنہ اڑا دوں گا۔' شارق  گن دکھاتے ہوئے مجتبٰی غازیان اور غزالہ بیگم کو باہر لے لایا۔ عریش  نے غزالہ بیگم کو کرسی پر بٹھایا اور انھیں باندھنے کے لیے رسی اٹھائی، لیکن مجتبٰی غازیان  نے رسی لی۔ عریش نے احتجاج کرنا چاہا پر ان کی گھوری پر خاموش ہو گیا۔ انھوں نے خود ہی غزالہ بیگم کو کچھ اس طرح سے باندھا کہ انھیں تکلیف نہ ہو۔

' مجتبٰی  یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ بجائے کچھ کرنے کہ آپ مجھے ہی باندھ رہے ہیں؟' غزالہ بیگم نے پریشانی سے پوچھا۔ 

' کچھ خاص نہیں۔ بس میرے بچوں کو میرے ہی گھر میں ڈاکہ ڈالنے کا شوق ہو رہا ہے تو ان کا کام آسان کر رہا ہوں۔'

مجتبٰی غازیان  نے مسکراتے ہوئے کہا اور خود بھی کرسی پر بیٹھ  گئے۔

' آؤ برخوردار اب مجھے بھی باندھ لو اس سے پہلے کہ میرا ارادہ بدل جائے اور میں تم دونوں کا دماغ ردست کردوں۔'

عریش اور شارق منہ کھولے یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان کو کیسے پتا چلا۔ 

'بیٹا جی صرف چہرہ ڈھکا ہوا ہے آواز نہیں بدلی۔ اب تم دونوں آتے ہو یا میں اٹھوں؟' مجتبٰی  غازیان  کی آواز دونوں کو حقیقی دینا میں واپس لائی تو عریش نے  شرمندگی سے مسکراتے ہوتے ہوئے آگے بڑھ ان کو باندھ دیا۔

'اب جاؤ دائم اور اقراء کو بھی لے آؤ۔'

شارق  سر ہلاتے ہوئے دائم کے کمرے کی طرف بڑھ گیا جبکہ عریش  رسیاں اکھٹی کر کہ اس کے  پیچھے چل پڑا۔

کچھ ہی دیر بعد شارق دائم اور اقراء پلین بتا کر مجتبٰی غازیان  کی طرف لے آیا اور دونوں کو کرسیوں پر بٹھایا کر پہلے اقراء کو باندھا۔ اس سے پہلے کہ شارق دائم کی طرف بڑھتا، لاؤنچ سے آتی آواز پر رک گیا۔ غور کرنے پر پتا چلا کہ وہ تانیہ تھی، جو کچن میں پانی پی رہی تھی۔ عریش نے پائیز کو ڑیڈی رہنے کا میسج کیا۔ شارق  کے اشارے پر دائم نے ایسے ظاہر کیا جیسے شارق اسے زبردستی باندھ رہا ہو۔ پھر توقع کے عین مطابق تانیہ آواز سن کر ان کی طرف آئی اور دائم کو اس حال میں دیکھ کر اس کی طرف بھاگی۔ لیکن راستے میں ہی عریش  نے تانیہ  کو پکڑ لیا اور عریش  کے اشارے پر مجتبٰی غازیان نے اسے  دھمکایا۔ تب ہی پائیز  کی انٹری ہوئی جو بڑی سنجیدگی سے پلین پر عمل کرتا تانیہ  اور عریش  کی طرف بڑھ رہا تھا۔ عریش  نے تانیہ  کو دھکا دیا اور شارق کی طرف بھاگا۔ اور وہ جو ایک بیگ پکڑے اسی انتظار میں تھا، عریش کے ساتھ مل کر بھاگنے لگا لیکن پائیز  نے شارق کو پکڑا لیا۔ اور تینوں نے یوں ظاہر کیا جیسے سچ میں ان میں ہاتھاپائی ہو رہی ہو۔ تب ہی اچانک پائیز  کا ہاتھ لگنے سے عریش  کی گن سے گولی چل گئی۔ جو کہ  پائیز کو لگ گئی۔ سب اپنی اپنی جگہ فریز ہو گئے۔ پائیز  نے پہلے عریش کو دیکھا، پھر شارق کو دیکھتے ہی ہوش و حواس سے بے گانہ ہوتا زمین پر گر گیا۔

یہ کیا ہوگیا تھا؟ یہ پلین کا حصہ تو نہیں تھا۔ پلین کے مطابق تو پائیز  کو یرغمال بنایا جانا تھا اور تانیہ کی ریکوسٹ پر اسے چھوڑ دیا جاتا یعنی پلین کلوز کر دیا جاتا۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہو گیا تھا۔ عریش کبھی اپنے ہاتھ میں گن کو دیکھتا تو کبھی خون میں لت پت پائیز کو۔

'پائیز  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔' مجتبٰی غازیان کی چیخ پر دائم پائیز کی طرف بھاگا  اور اپنے جان سے پیارے بھائی کو اس حالت میں دیکھ کر وہ تڑپ گیا۔  مجتبٰی غازیان بھی خود کو آزاد کروا  کر پائیز  کے پاس آئے اور اس کا سر اپنی گود میں رکھتے ہوئے دیوانہ وار  پکارنے لگے۔

صدمے سے نڈھال ہوتے  شارق  نے ایمبولینس کو کال کی اور آگے بڑھ کر غزالہ بیگم اور اقراء کی رسیاں کھولنے لگا۔ جبکہ عریش  روتے ہوئے اپنی صفائی پیش کر رہا تھا۔

ایمبولینس کے آتے ہی پائیز  کو ہسپتال لے آئے۔ وہ آئی-سی-یو میں تھا۔ جہاں ڈاکٹرز آپریشن کر رہے تھے۔

*******************

'گن لوڈ رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔' مجتبٰی غازیان  نے گہرا سانس بھرتے ہوئے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔

'چاچو قسم سے ہم نے گن لوڈ نہیں کی تھی بلکہ اس میں تو گولیاں ہی نہیں تھیں۔' شارق نے روتے ہوئے بتایا۔ 

مجتبٰی غازیان  نے  روتے ہوئے شارق  کے سر پر ہاتھ رکھا  اور پھر عریش  کو دیکھا جس کو چپ سی لگ گئی تھی، جب سے پائیز  کو گولی لگی تھی۔ مجتبٰی غازیان اٹھ کر عریش کے پاس گئے۔ کیونکہ انھیں شارق اور عریش بھی اپنے بچوں کی طرح پیارے تھے اور انھیں اس حال میں دیکھنا  ان کے لیے مشکل تھا۔

'کچھ نہیں ہوگا پائیز  کو۔' مجتبٰی غازیان نے تسلی دی۔ لیکن عریش کی چپ نہ ٹوٹی۔ وہ یک ٹک ICU کے دروازے کو دیکھے جا رہا تھا۔ لیکن جب بولا تو آواز میں کرب تھا۔

' میں نے پائیز کو گولی مار دی چاچو۔'

یہ خیال ہی جان نکالنے کو کافی تھا کہ پائیز  کو گولی کیسی اور نے نہیں بلکہ خود عریش  نے ماری تھی۔ حالانکہ وہ غلطی سے لگی تھی لیکن اس وقت عریش  خود کو قصوروار سمجھ رہا تھا۔

آئی-سی-یو سے باہر آتے ہوئے ڈاکٹر کی آواز پر سب نے مڑ کر دیکھا، پر سامنے کا منظر دیکھ کر ایک لمحے کے لیے سُن ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*******************

شارمین کروٹ بدل بدل کر تھک گئی تھی لیکن نیند کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ 

' یاررررر۔۔ کیا مصیبت ہے۔ کیوں نیند نہیں آرہی۔۔' شارمین جھنجھلا کر اٹھ بیٹھی۔ 

' چلو ایشل اور ونیسہ سے بات کر لیتی ہوں۔ شاید تھوڑا سکون آجائے۔' یہ کہتے ہی شارمین نے موبائل اٹھایا اور گروپ میں سلام کا میسج کیا۔

' اوئے پشوگے۔ خیریت ہے؟ یہ اتنی رات کو الووں کی طرح کیوں جاگ رہی ہو۔' ونیسہ نے دانت نکالنے والے ایموجی سنڈ کیے۔

' اچھا میں الو تو تم کیا ہو۔' شارمین نے کہا۔

'  آفکارس آئی ایم سون پری۔' ونیسہ نے 'میرا اسٹائل' میں جواب دیا، جسے پڑھ کر شارمین کی ہنسی نکل گئی۔

' یارا کہا چیز ہو تم۔'

' بس جیسی بھی ہوں اکلوتی پیس ہوں اس دنیا میں۔ میری جیسی کوئی نہیں ملے گی۔' ونیسہ نے فخر سے کہا۔

' ہاں اس میں تو کوئی شک نہیں۔' شارمین نے پیار سے کہا۔

' اسی لیے کہتی ہوں میری قدر کیا کرو۔ کل کو جب میں نہیں ہوں گی تو پھر روتی پھرو گی۔' ونیسہ نے کہا۔

' بس بس اب زیادہ نہ پھیلو۔ میں کیوں روں؟ روئیں میرے دشمن۔' شارمین نے رپلائے دیا۔

' بَغرتوں تم لوگوں کو آرام نہیں ہے؟ یہ کیا آدھی رات کو چڑیلوں کی طرح جاگ رہئ ہو۔' ایشل نے آتے ہی دوںوں کو اچھی خاصی سنا دی۔

' یار ایشو میں بہت بےچین ہوں۔ تم دونوں سے ایک بات کرنی تھی۔' شارمین نے ایشل کو ٹوک کر اپنا مسئلہ بیان کیا۔

' شانی سب خیریت ہے نا؟' ونیسہ نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔

' ہاں بھی اور نہیں بھی۔' شارمین نے میسج کیا اور ساتھ ہی کال ملا دی۔

' ہاں اب بولو۔ کیا ہوا۔ کیوں بےچین ہو۔' ایشل نے کہا۔ شارمین نے سارا واقعہ کہہ سنایا۔

' تو پشوگے اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟ آج نہیں تو کل یہ سب ہونا ہی ہے۔' وینسہ نے ہمیشہ کی طرح شارمین کو سمجھایا۔

' ہاں نہ شانی۔ تم یہ سب سر پر کیوں سوار کر رہی ہو۔ ابھی کون سا بات پکی ہو گئی ہے یا پھر  آنٹی نے کل رخصتی طہ کر دی ہے۔' ایشل نے کہا۔

' اللہ نہ کرے ایشو۔ کیسی باتیں کرتی ہو۔' شارمین  دھل کر بولی۔

ادھر میرا رشتے کی بات سے دل نکل رہا ہے اور تم رخصتی کی بات کر رہی ہو۔'

' جو بھی ہو۔ میں تو بڑی خوش ہوں۔' ونیسہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

' ہاں ہاں تمھارے تو دل کا ارمان پورا ہو رہا ہے ۔ خوشی تو ہونی ہی ہے۔'

' ہاں نا۔۔ اب میری خوشی دوبالا ہوجائے اگر بات بن جائے۔' ونیسہ نے شرارت سے کہا۔

' ونییییییی۔۔' شارمین نے چِڑتے ہوئے کہا۔

' دیکھو شانی ہونا وہی ہے جو اللہ چاہیں گے، تو فضول میں پریشان نا ہو۔ تمہیں اللہ پر بھروسہ ہے نا؟' ایشو سمجھاتے ہوئے کہنے لگی۔

' ہاں اللہ پر ہی تو بھروسہ ہے۔' شارمین نے آہستہ آواز میں کہا۔

' بس پھر تم بے فکر رہو، اللہ جی سب بہتر کریں گے۔' ونی نے بھی سمجھایا۔

'بس اب تم آرام سے سو جاؤ صبح اٹھنا بھی ہے۔'

' ہممم۔۔ صحیح۔ چلو ٹھیک ہے۔' شارمین نے کہا۔

' اللہ حافظ شانی ونی۔' ایشل نے کیا

' اللہ حافظ ایشو۔'

' با اُمیدِ دیدار۔ اللہ نگہبان۔' ونی نے ہمیشہ کی طرح کہا جس کے جواب میں شارمین اور ایشل نے بیک وقت آمین کہا۔

ونیسہ اور ایشل سے بات کر کہ شارمین خود کو کافی ہلکا محسوس کر رہی تھی۔

جبکہ دوسری طرف ونیسہ شارمین کو تو تسلی دے رہی تھی لیکن خود پریشان ہو گئی تھی۔ یہ سچ تھا کہ ونیسہ کو شارمین کی شادی کا بہت شوق تھا۔ کالج میں جب بھی آذان ہوتی تھی تو شارمین کو چِڑانے کے لیے اس کی شادی کی دعا کرتی تھی۔  لیکن آج  شارمین سے رشتے کی بات سن کر ونیسہ کو عجیب لگ رہا تھا۔ ونیسہ کے دل و دماغ میں جنگ چِھڑی ہوئی تھی۔ دل کہتا تھا یہ بہت جلدی  ہے۔ جبکہ دماغ کہتا تھا تم بھی تو یہی چاہتی تھی۔

' اللہ جی۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ۔۔' دل و دماغ کی جنگ سے آجز آتے، ونیسہ نے کہا۔

' بس جو بھی ہو رہا ہے اللہ جی کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ تم چپ ہو کر سو جاؤ۔' خود کو ڈانٹتے ہوئے ونیسہ سونے کو لیٹ گئی۔

*******************

ان شاءاللہ باقی آئندہ!

   9
4 Comments

Anuradha

10-Sep-2022 04:01 PM

😥😥😥😥😥

Reply

Khushbu

02-Aug-2022 09:02 PM

👏👌

Reply

Raziya bano

02-Aug-2022 07:05 PM

نائس

Reply